بونا شہزادہ دلچسپ کہانی

 



تین شہزادے:-

                   شہریار بادشاہ کے تین بیٹے تھے اسلم اجمل اور منظر ۔اس اسلم اور اجمل کے قد عام لوگوں کے برابر تھے لیکن منظر کا قد چھوٹا تھا اتنا چھوٹا کے جب وہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تو اس کا سر ان کی ناف تک آتا اس کے چھوٹے قد کی وجہ سے لوگ اسے "بونا شہزادہ" کہتے تھے۔


اس کا یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ اکثر لوگ اس کا اصل نام ہی نہیں جانتے تھے جیسے دیکھوں اسے "بونا شہزادہ " یہی کہتا یہ بات شہزادے کو بھی معلوم ہوگئی تھی لیکن وہ دل کا اتنا اچھا تھا کہ اس نے کبھی کسی کو کچھ نہ کہا بونا شہزادہ سخی بھی تھا رحم دل اور غریب پردر بھی ذہانت اور عقلمندی میں بھی اپنے دونوں بڑے بھائیوں سے بازی لے گیا تھا۔


اجمل اور اسلم دونوں کم پڑھے لکھے تھے درباری کاموں میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی لڑائی جھگڑے کے لیے ہر وقت تیار رہتے کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرتے اور انہیں روتا دیکھ کر ہنسا کرتے ایک روز دونوں نے سوچا کہ اپنے ملک سے نکل کر ایک بہت بڑی فوج بنائیں پھر چھوٹے چھوٹے ملکوں پر حملہ کرکے انہیں فتح کریں اور اپنی حکومت قائم کریں یہ سوچ کر دونوں بھائی بادشاہ کے پاس گئے اور اس سے اجازت مانگی لیکن اس نے انکار کر دیا شہزادے خاموش ہو گئے۔


 مگر ایک دو ہفتے کے بعد حکومت کرنے کا خیال پھر ان کے دل میں پیدا ہوا اور وہ دونوں پھر بادشاہ کے پاس گئے لیکن اس نے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا ایک مہینے کے بعد دونوں بھائیوں کو پھر حکومت کرنے کا خیال ہوا اور بادشاہ کے پاس جا کر کہنے لگے اگر آپ اجازت نہیں دیں گے تو ہم خود کشی کر لیں گے۔


 بادشاہ نے کہا" اپنے ملک سے نکل کر فوج بنانا اور دوسرے ملکوں کو فتح کرنا بے حد مشکل کام ہے لیکن تجربہ کے بغیر تم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لہذا تم جا سکتے ہو۔


 دونوں بیٹوں نے بادشاہ کے ہاتھ چومے اور خرچ کے لئے روپے طلب کیے بادشاہ نے خزانے کے وزیر کو حکم دیا کیا کہ وہ دونوں شہزادوں کو ایک لاکھ اشرفیاں دے دیں ۔


شہزاد بہت خوش ہوئے اور دوسرے ہی روز دو لاکھ اشرفیاں لے کر روانہ ہو گئے اور بونا بادشاہ اپنے ماں باپ کے پاس اکیلا رہ گیا۔


فقیر اور غلامی


                  شہزادہ اسلم اور شہزادہ اجمل کئی ہفتوں کے سفر کے بعد اپنے ملک کی سرحد سے باہر نکلے اور جنگل جنگل پھرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور ہریالی ہی ہریالی تھی

 قسم قسم کے پھول طرح طرح کے پھل اور میووں کے درخت دکھائی دے رہے تھے خوش الحان پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں سے یوں معلوم دیتا تھاجیسے وہ بہشت میں پہنچ گئے ہوں دونوں بھائیوں نے کہا آج مدت کے بعد ہم نے ایسی جگہ دیکھی ہیں آو یہاں کی سیر کریں شہزادہ آگے بڑھے تو ایک بڑا دروازہ نظر آیا جو اس وقت بند تھا اور سیڑھیوں پر ایک فقیر بیٹھا ہوا تھا

 شہزادہ اسلم نے اس سے کہا بابا ! دروازہ کھولو ہم اس باغ میں جائیں گے۔


 فقیر بولا:- اس باغ میں جانا بہت مشکل ہے

اجمل نے کہا:- کیوں ؟ بات کیا ہے؟


فقیر کہنے لگا:- مجھے ایک بار ایک ننھی منی شہزادی نے ایک پودنے کی کہانی سنائی تھی جس کے یہ الفاظ مجھے آج تک یاد ہے۔


دو سر کنڈوں کی گاڑی بنائی دو مینڈک جوتے جائیں راجہ نے پکڑنی پودنی ہم بیر بساون جائیں وہ شہزادی ایک بار آئی تھی پھر کبھی نہیں آئی اور میں ایسی ہی ایک کہانی سننے کو ترس رہا ہوں اگر تم مجھے ایک کہانی سنا دو تو میں یہ دروازہ کھول دوں گا۔


 شہزادوں نے کہا :- بابا ! کہانی تو بچے سنا کرتے ہیں تمہارا وقت تو اللہ اللہ کرنے کا ہے فقیر ہنس کر بولا بیٹا ضعیفی میں انسان کا مزاج بچوں جیسا ہی ہو جاتا ہے شہزادوں نے کہا بابا ہمیں تو  کہانیاں سننے کا شوق ہے اور نہ سنانے کا اشرفیاں چاہتے ہو تو ہم دے سکتے ہیں۔


 فقیر بولا اشرفیاں ہم فقیروں کے کس کام کی دروازہ میں کھول دیتا ہوں لیکن یہ یاد رکھنا کہانی سنائے بغیر اندر گئے تو کنگلے بن کر باہر نکلو گے شہزادوں نے کہا تم اس بات کی فکر نہ کرو ہم شہزادے ہیں اور ہمارے بازوؤں  میں طاقت ہے ہمارے مقابلے پر کوئی نہیں آسکتا فقیر ان کی باتیں سن کر ہنس دیا اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور کہا  اپنے گھوڑوں کو یہیی چھوڑ جاؤ اور خود جا کر سیر کرو شہزادوں نے گھوڑوں کو سیڑھیوں کے پاس ہی درخت سے باندھ دیا اور سینہ تان کر دروازے میں داخل ہوئے خوش رنگ پھول فوارے سبزہ پرندے اور رنگ برنگی تتلی دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو گیا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھاتے ہوئے جیسے ہی آگے بڑھے تو ایک خوبصورت عورت پھولوں کے ہار لیے ہوئے آگے آئی اور ان کے گلوں میں ایک ایک ہار پہنا دیا اور کہنے لگی ہاروں کے دام تو دیجئے شہزادوں نے دو دو اشرفیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیں پھر آگے بڑھے تو ایک لڑکی ملی اس نے دونوں کو ایک ایک سیب دیا اور دام طلب کیے شہزاد نے اسے بھی دو دو اشرفیاں دیں پھر ایک ضعیف عورت ملی اس نے دو انگوٹھیاں دے کر سو اشرفیاں حاصل کر لی اسی طرح لڑکیاں اور عورتیں ملتی رہی اور سامان فروخت کرتی رہی ادھر شہزادوں کے پاس اتنی چیزیں ہو گئی کہ انہیں اٹھانا مشکل ہو گیا آخر انہوں نے ایک آدمی سے ایک خچر خرید لیا اور اپنا سارا سامان اس پر لاد دیا شام ہونے والی تھی ۔


شہزادوں کو اپنے گھوڑوں کا خیال آیا تو وہ واپس دروازے کی طرف لوٹے لیکن چند قدم ہی چلے تھے کہ بیس پچیس سپاہیوں نے انہیں گھیر لیا اور کہا یہ خچر اور یہ سارا سامان چوری کا ہے لہذا تمہیں ملکہ کے پاس چلنا ہوگا ۔


شہزادوں نے بہت سے عزر کیے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور پکڑ کر خوب صورت ملکہ کے پاس لے گئے ملکہ نے ایک چیز دیکھنے کے بعد کہا  یہ سارا سامان ہمارا ہے اسے ایک طرف رکھ کر ان بدمعاشوں کی تلاشی لو سپاہیوں نے شہزادوں کی تلاشی لینے کے بعد ایک لاکھ نوے ہزار اشرفیاں نکالیں اور ملکہ کے قدموں میں بکھیر دیں ملکہ نے کہا یہ اشرفیاں ہمارے خزانے میں رکھی جائیں اور دونوں کو ہمارے غلاموں میں شامل کردیا جائے شہزادوں نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا روئے گڑگڑائے فریاد کی پاؤں پکڑے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور سپاہی دونوں کو گھسیٹ کر لے گئے ان کے قیمتی اور بھڑکیلے کپڑے اتار کر ایک طرف رکھ دیے  اور پرانے کپڑے پہنا کر غلام میں پہنچا دیا دونوں بڑے پریشان تھے ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اگر ہمیں کہانیاں سننے اور سنانے کا شوق ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔


شہزادوں کی تلاش  


                      شہزادہ اسلم اور شہزادہ اجمل کو گئے ہوئے ڈیڑھ سال گزر گیا لیکن نہ ان کی خیریت کا پتہ آیا اور نہ کوئی خبر ملی تو بادشاہ بہت پریشان ہوں اور ہر وقت اداس رہنےلگے یہی حال ملکہ اور بونے شہزادہ کا تھا بونے بادشاہ نے سوچا اگر بادشاہ اداس اور پریشان رہا تو حکومت کے بہت سے کام بگڑ جائیں گے پھر اس نے بادشاہ سے کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں جا کر اپنے بھائیوں کو تلاش کرکے واپس لے آؤ بادشاہ نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا دو بیٹے تو پہلے ہی جدا ہو گئے ہیں اب کیا تم بھی رنج و غم دینا چاہتے ہو بونا شہزادہ بولا ابا حضور وہ تو فوج بنا کر ملک فتح کرنے کے لیے گئے ہیں۔


 اسی لئے ابھی تک واپس نہیں آئے لیکن میں تو صرف انہیں تلاش کرنے جا رہا ہوں اسی لیے بہت جلد واپس آجاؤں گا آخر بادشاہ نے اسے اجازت دے دی اور ایک لاکھ اشرفیاں کی تھیلی دے کر ہزاروں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا بونے شہزادے نے اپنا شاہی لباس اتار کر معمولی کپڑے پہنے اور ایک لاکھ اشرفیوں کو ایک گدڑی میں لپیٹا پھر ایک تیز رفتار گھوڑی پر سوار ہو کر بھائیوں کی تلاش میں روانہ ہوا بہت دنوں کے بعد وہ بھی فقیر کے پاس پہنچ گیا فقیر نے کہا بیٹا اگر اس دروازے میں داخل ہو کر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو مجھے ایک کہانی سناؤ بونے شہزادے نے فقیر کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا بابا میں پڑھا لکھا آدمی ہوں اور مجھے بچپن ہی سے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا شوق ہے تم کہو تو میں تمہیں ہزاروں کہانیاں سنا دوں فقیر خوش ہو کر بولا شاباش بیٹا لو پہلے یہ سیب کھاؤ پھر مجھے ایسی کہانی سناؤں جیسی میں پہلے سن چکا ہوں اس میں کچھ ایسے الفاظ تھے۔


" دو سر سرکنڈو کی گاڑی بنائی دو مینڈک جوتے جائیں بونے شہزادے نے بات کاٹتے ہوئے کہا ہاں ہاں یہ کہانی تو مجھے بھی یاد ہے یہ پودنے کی کہانی ہے اب میں سمجھ گیا جو ہماری بڑی بوڑھی عورتیں اپنے بچوں کو سنایا کرتی ہیں"


فقیر نے محبت سے بونے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سیب کھلا کر کہنے لگا بیٹا تم آرام سے بیٹھ جاؤ اور مجھے کہانی سناؤ بونا شہزادہ بولا سنو بابا میں تمہیں سناتا ہوں۔


بونے نے کہانی سنائی


         ایک جو بیوی تھیں وہ چڑیا کی زبان کھاتی تھی اور روٹی کا پھپولا کھاتی تھیں ان کے میاں کو بڑی فکر رہتی تھی کہ میری بیوی کچھ نہیں کھاتیں ایک دن ان کے میاں نے اپنے دوست سے کہا کے بھائی میری بیوی تو بہت ہی کم کھانا کھاتی ہے اس نے کہا کہ کتنا کم کھاتی ہے؟ 


کہا چڑیا کی زبان اور روٹی کا پھپولا اس نے کہا بھائی کوئی چڑیا کی زبان کا سالن اور روٹی کے پھپولے سے بھی جی سکتا ہے؟ تم ایک دن اپنے گھر میں کسی اسیی جگہ چھپ کر بیٹھو جہاں سے تمہاری بیوی تم کو نہ دیکھیں اور تم اس کو دیکھتے رہو اس نے کہا ٹھیک ہے ایک روز اس نے یوں ہی کیا تو اس نے دیکھا کہ تھوڑی سی دیر میں بیوی نے لونڈی کو بلایا کہ اے بی کیتکی بلالوں بیوی کے پیٹ کی کہ وہ اے بھوبل میں کاروٹا تو لاؤ لونڈی گئی اور چولھے میں سے سوا سیرکاروٹ نکال کرلے آئی بیوی نے وہ کھالیا تھوڑی دیر کے بعد پھر کہا کہ اے کیتکی کہ بلالوں بیوی کے پیٹ کی اے کہ ذرا کھچڑی تو لاؤ وہ جو گئی تو  سیر بھر کھچڑی ایک کونڈے میں نکال کرلے آئی۔


 اس نے وہ بھی کھالی تھوڑی دیر ہوئی تو پھر کہا کہ اے بیوی کیتکی کہ بلالوں بیوی کے پیٹ کی اے کہ ذرا تل بھگا تو لاؤ وہ جو گئی تو  سیر سوا سیر تل بھگالے آئی اس نے وہ بھی کھا لیا تھوڑی دیر ہوئی پھر کہا اے کہ ذرا وہ پنجیری تو لاؤ وہ جوگئی تو دو ڈھائی سیر پنجیری لے آئی بیوی نے خوب انگنائی میں ٹہل ٹہل کر پنجیری پھانکی۔ میاں بےچارا حیران  بیٹھے دیکھا کئے شام ہوتے گھر میں آئے کہ میاں تم سارا دن کہاں رہے میں تو بھوکی مرگئی کہا کچھ کام تھا اس لئے گھر نہیں آیا آج کوئی چڑیا بھی نہیں ملی صبح جا کر لاؤں گا صبح ہوتے ہی میاں جو تھے باہر چل دیئے وہاں سے ایک موٹا سا کالا سانپ پکڑ کر لائیں اور بیوی کے آگے دھر دیا اے میاں یہ تو اتنا موٹا کے بیوی یہ تو بھوبل میں کا روٹا۔ 


اے میاں یہ تو ہلتا کہ بیوی تو گھر کھچڑی میں ملنا کہ میاں یہ تو کالا اے کے بیوی یہ تو تل بھگوں کا نوالا اے کہ میاں خدا کے لئے تو اس کو ڈھانکو کہ بیوی تم تو انگنائی میں ٹہل ٹہل کر پنجیری پھانکو بیوی نے جب اپنی باتوں کا ایسا جواب پایا تو بہت شرمندہ ہوئی اور جان لیا کہ میاں کو سب کچھ معلوم ہوگیا پھر آج سے وہ معمولی روٹی سالن کھانے لگی بونے شہزادے نے کہا یہ تھی کہانی بابا فقیر بولا بہت اچھی کہانی ہے مجھے بہت پسند آئی پھر اس نے سرخ موتیوں کی ایک مالا بونے کے گلے میں پہنائی اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا پھر کہا جا بیٹا خدا تیرا بھلا کرے گا"


پرانا قلعہ


بونا شہزادہ جیسے ہی باغ میں داخل ہوا تو کئی خوبصورت عورتیں پھولوں کے ہار لئے ہوئے آئیں اور اس کے گلے میں پہنا دیئے بونے نے پوچھا ان کے دام کتنے ہوئے انہوں نے کہا مہمانوں سے بھلا کوئی دام لیا کرتا ہے۔


 شہزادہ ٹہلتا ہوا آگے چلا تو چھ سات لڑکیاں ملیں انہوں نے سیب انار اور انناس کھلایا پھر ایک جوہری ملا اس نے ہیرےجواہرات سے بنا ہوا تاج سر پر رکھ دیا اسی طرح اس کے پاس بھی بہت سامان ہو گیا پھر اسے غلام ملے اور انہوں نے اس کا سامان اپنے سروں پر اٹھا لیا بونا حیران تھا کے آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ۔


لیکن وہ خاموش تھا اور چلا جا رہا تھا کے راستے میں تین سپاہی ملے انہوں نے جھک کر سلام کیا اور ایک سفید رنگ کے گھوڑے پر بونے کو  بٹھا دیا بونا دل میں بے حد خوش ہوا اور آگے روانہ ہوا چلتے چلتے ایک محل دکھائی دیا اس کے عالیشان دروازے پر 15 سپاہی بندوقیں لیے پہرہ دے رہے تھے انہوں نے بونے کو دیکھتے ہی فقارہ بچالیا اور آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ تھام لی تھوڑے ہی دیر گزری تھی کہ پچاس کنیز دوڑتی ہوئی آئی اور بونے کو اس کے غلاموں کے ساتھ محل میں لے گئے وہاں بادشاہ پہلے ہی سے کھڑا ہوا اس کا انتظار کر رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر بونے کو سینے سے لگانا چاہا لیکن بونا تو اتنا چھوٹا تھا کہ بادشاہ کی ٹانگ اور بونے کا قد برابر تھا آخر بادشاہ کو فرش پر بیٹھنا پڑا پھر اس نے بونے کو سینے سے لگایا اور اٹھ کر اسے ایک بہت بڑے کمرے میں لے گیا اس کمرے میں گیارہ کرسیاں تھیں ان میں سے درمیان والی کرسی بادشاہ کے بیٹے نے کی تھی بادشاہ اپنی کرسی کی طرف چلا تو بونے نے سوچا کہ تمام کرسی بہت اونچی ہیں میں ان میں سے کسی پر بھی نہ چڑھ سکوں گا اور یہ بڑی عجیب سی بات ہوئی اسی لیے جلدی سے کسی طرح کرسی پر چڑھ جاؤ او یہ سوچ کر وہ نیچے جھکا پھر زور سے اچھلا لیکن کرسی کی گدی تک نہ پہنچ سکا دوبارہ اچھلا پھر تیسری بار اچھلا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔


 بادشاہ نے اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے شہزادے کو دیکھا تو وہ بار بار اچھل رہا تھا بادشاہ ہنس پڑا اور پھر اس نے غلاموں کو اشارہ کیا کہ وہ اسے اٹھا کر کرسی پر بٹھا دیں غلام نے بونے کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر اٹھایا  اور کرسی پر بٹھا دیا بادشاہ نے شہزادے سے کہا خدا نے ہمیں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا دیا ہے۔


 اور ان بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بہت ہی خوبصورت ہے لیکن اس کا قد اتنا چھوٹا ہے جتنا تمہارا اسی لئے ہمارا خیال ہے کہ ہم تم کو اپنا بنالیں اور تم دونوں ہمیشہ ساتھ رہا کرو بونا شہزادہ سمجھ گیا کہ بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرانا چاہتا ہے اس نے کہا جیسی آپ کی مرضی مجھے آپ کی کسی بات سے انکار نہیں بادشاہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے اسی وقت جشن منانے کا اعلان کردیا شام کے وقت وزیر ، امیر اور چھوٹے بڑے عہدہ دار جمع ہوئے بونا بادشاہ سونے چاندی کے تخت پر بٹھایا گیا ۔


پھر بونی شہزادی کو سجا کر کئی کنیز لائیں اور شہزادے کے پاس بٹھا دیا بڑے وزیر نے تمام مہمانوں کو بتایا کہ آج شہزادی صاحبہ کی منگنی کی رسم ادا ہونی ہے اور دو مہینے کے بعد ان کی شادی ہوگئی اعلان کے بعد دو غلام سونے کے گلاسوں میں دودھ بھر کر لائے اور جھک کر آداب کے ساتھ بونے شہزادے اور بونی شہزادی کو پیش کئے ہاتھ میں گلاس لیتے ہوئے بونے شہزادے کی نگاہ غلام کے چہرے پر پڑی تو اس کا جسم کانپ اٹھا اور ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر فرش پر گر پڑا بادشاہ اور وزیر شہزادے کی طرف دوڑے کیا ہوا کیا ہوا خیر تو ہے۔


 شہزادہ اسلم جو غلام بنا ہوا تھا آنسو نہ روک سکا اور دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے شہزادہ اجمل جس نے شہزادی کو گلاس دیا تھا وہ بھی بونے سے لپٹ گیا اور تمام مہمانوں کے سامنے سارا واقعہ اسے کہہ سنایا بونے شہزادے نے کہا بھائی جان ایک فقیر مجھے بھی دروازے پر ملا تھا لیکن جب میں نے اسے ایک کہانی سنائی تو اس نے خوش ہو کر مجھے دعائیں دیں اور یہاں آنے کی اجازت دے دی اگر آپ بھی اسے کہانی سنا دیتے تو آج اس مصیبت میں گرفتار نہ ہوتے بادشاہ پاس کھڑا ہوا تھا تینوں بھائیوں کی بات سن رہا تھا اس نے کہا یہاں سے دور بہت دور ایک پرانا قلعہ ہے اس میں اس فقیر کا بھائی رہتا ہے اسی کے کہنے پر فقیر کہانی سنانے کی فرمائش کرتا ہے۔


 بونے شہزادے نے کہا کہانی اگر اسے نہ سنائی جائے تو مسافر غلام کیوں بنالیے جاتے ہیں۔


 بادشاہ بولا یہ ایک راز ہے جو فقیر کے بھائی کو معلوم ہے اور ہم بھی جانتے ہیں لیکن اگر ہم نے یہ راز ظاہر کر دیا تو ہم خود مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے بونا شہزادہ کہنے لگا اگر آپ بھی یہ راز ظاہر کرنا نہیں چاہتے تو ہم تینوں بھائیوں کو اجازت دیجئے تاکہ ہم جا کر فقیر کے بھائی سے دریافت کریں۔


 بادشاہ نے کہا نہیں میں اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ وہاں جو بھی گیا وہ آج تک واپس نہیں لوٹا اور میں تم کو کھونا نہیں چاہتا ۔


بونے شہزادے نے کہا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہم تینوں بھائی ضرور واپس آئیں گے بونے نے اتنی ضد کی کہ بادشاہ اس کو اجازت دینے پر مجبور ہوگیا اس نے شہزادہ اسلم اور شہزادہ اجمل کو بھی اس پر آزاد کردیا کہ وہ واپس نہیں جاسکتے ۔


 البتہ آگے جانا چاہیں تو شوق سے چلے جائیں تینوں شہزادے بادشاہ سے رخصت ہو کر روانہ ہوئے اور چلتے چلتے بہت دور نکل گئے گئے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں ندیوں نالوں اور جنگلوں سے گزرتے چلے جارہے تھے کہ ایک جگہ اونچا سا ٹیلہ دیکھ کر تینوں سستانے کے لئے بیٹھ گئے بیٹھے بیٹھے بڑے بھائی کی نگاہ چوٹیوں کے بل پڑی تو کہنے لگا آو اس جگہ سے مٹی کھود کر پھینک دیں پھر دیکھناچونٹیاں کس طرح گھبرا کر ادھر ادھر بھاگتی ہیں۔


 شہزادہ اجمل مسکراتے ہوئے بولا ہاں بات تو ٹھیک ہے اور اس وقت تو بڑا ہی مزا آئے گا جب چیونٹیاں اپنے انڈوں کو منہ میں پکڑ کر ادھر ادھر بھاگیں گی بونا شہزادہ کہنے لگا ۔


نہیں بالکل غلط بات ہے بے زبان ننھی ننھی چیونٹیوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم ان کے گھروں کو برباد کرنا چاہتے ہو میں ہرگز تمہیں ایسا نہ کرنے دوں گا دونوں بڑے شہزادے سخت دل کے تھے لیکن اس وقت اس خیال سے چپ ہو گئے کہ بونے کی وجہ ہی سے وہ آزاد ہوئے تھے ٹیلے پر آرام کرنے کے بعد تینوں اٹھے اور آگے چل دیے۔


 چلتےچلتے جھیل پر پہنچے جس کے چاروں طرف بڑے بڑے اور سایہ دار درخت تھے جھیل کے نیلے پانی میں تیرتی ہوئی سفید سفید بطخیں بہت ہی بھلی معلوم دے رہی تھی دونوں بڑے بھائیوں نے کہا کیسی اچھی بطخیں ہیں کیوں نہ دو چار بطخوں کو پکڑ کر ذبح کریں اور بھون کر کھا جائیں بونے شہزادے نے کہا ذرا سی دیر کے ذائقے کے لئے کیوں ان بے زبانوں کو ذبح کریں اور جھیل کی رونق بھی  تو ان ہی سے ہے دونوں بھائیوں نے کہا تم عجیب آدمی ہو چیونٹیوں کے گھروندے نہ بگاڑو بطخوں کو نہ کھاؤ آخر تم چاہتے کیا ہو ہم کچھ بھی نہ کریں ۔


بونے شہزادے نے کہا اوپر دیکھو درختوں میں کتنے پھل لگے ہوئے ہیں کیا تم انہیں کھا کر پیٹ نہیں بھر سکتے اسلم اور اجمل خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے اور مجبور ہو کر درختوں سے پھل توڑے اور کھا کر آگے چل دیے ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ان کی نگاہ ایک درخت پر پڑی جہاں ایک ہال لٹک رہا تھا اور اس میں سے گاڑھا گاڑھا شہد نیچے ٹپک رہا تھا اسلم اور اجمل کے منہ میں پانی بھر آیا ۔


اور کہنے لگے شہد کی مکھیاں چھتے میں بیٹھی ہوئی ہیں کیوں نہ آگ لگا کر دھوئیں سے ان کو اڑا دیں اور سارا شہد چاٹ جائیں بونے شہزادے نے کہا

ابھی تو پھلوں سے پیٹ بھرے ہوئے ہیں شہد کھانے کی کیا ضرورت ہے ننھی ننھی مکھیوں نے قطرہ قطرہ لاکر تو یہ چھتہ تیار کیا ہے اور تم اسے ذرا سی دیر میں برباد کرنا چاہتے ہو تمہیں ان پر رحم کرنا چاہیے دونوں بھائیوں نے کہا بے وقوف یہ تمام چیزیں خدا نے ہم انسانوں ہی کے لئے پیدا کی ہیں اگر ہم ہر چیز کے لیے تیری عقل سے سوچیں تو ہم تو کچھ بھی نہ کھا سکیں۔


 بونے شہزادے نے کہا شہد مزے کے لیے نہیں کھایا جاتا حکیم لوگ اسے بیماروں کو دیتے ہیں اس لیے بلاضرورت کھانے سے کیا فائدہ بونے نے دونوں کو شہد نہیں کھانے دیا اور انہیں ساتھ لے کر آگے چل دیا کچھ فاصلہ پر ایک اونچی سی پہاڑی تھی۔


 جب تینوں شہزادے اس پر چڑھے تو انہیں پرانا قلعہ نظر آیا بونا خوشی سے اچھلتے ہوئے بولا بھائی جان بھائی جان وہ دیکھو وہ رہا قلعہ شہزادہ اسلم اور شہزادہ اجمل بھی خوشی سے مسکرا دیئے تینوں شہزادوں کے جسم میں ایک نئی قوت پیدا ہوگی اور وہ تیز تیز قدموں سے قلعے کی جانب دوڑنے لگے جب ذرا قریب پہنچے تو دیکھا کہ سرخ پتھر سے بنا ہوا قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر کھڑا ہوا ہے اس کے چاروں طرف ایک گہری خندق ہے اور قلعہ میں داخل ہونے کے لئے صرف ایک دروازہ ہے اس دروازہ تک پہنچنے کے لئے صرف خندق پر ایک چھوٹا سا پل بنا ہوا ہے۔


 شہزادے اس پل پر چڑھے اور تھوڑی ہی دیر میں دروازے پر جا پہنچے دروازہ کھلا ہوا تھا شہزادے اندر چلے گئے اور ادھر ادھر گھومتے رہے شروع میں گھوڑوں کے بڑے بڑے اصطبل تھے لیکن جو گھوڑے رسیوں سے بندھے ہوئے تھے وہ سب پھتر کے  تھے اور اصطبل سے آگے پتھر کے اونٹ اور پتھر کے ہاتھی کھڑے ہوئے تھے۔


 شہزادہے آگے چلے تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں جو بھی کوئی پرندہ جانور یا کوئی انسان نظر آتا ہے وہ پتھر ہی کا بنا ہوا ہوتا ہے اس عجیب و غریب بات نے انہیں حیرانی میں ڈال دیا اور انہیں یہ خوف معلوم دینے لگا کہ کہیں وہ بھی پتھر کے نہ بن جائیں کیونکہ بادشاہ نے کہا تھا کے آج تک جو بھی قلعے میں گیا وہ واپس لوٹ کر نہیں آیا تینوں شہزادے واپس بھاگنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے۔


 کہ بونے شہزادے کی نظر ایک ضعیف آدمی پر پڑی جو ایک کمرے میں ٹہل رہا تھا بونے نے کہا شاید یہی وہ فقیر کا بھائی معلوم دیتا ہے آو اس سے راز معلوم کریں شہزادے کمرے کے دروازے پر پہنچے دروازے میں  موٹی موٹی سلاخیں لگی ہوئی تھی اور ان میں تالا پڑا ہوا تھا ضعیف آدمی انہیں دیکھ کر قریب آیا اور سلاخوں میں ہاتھ ڈال کر تالا کھولا اور تینوں کو اندر بلایا پھر دسترخوان بچھا کر بٹھایا اور قسم قسم کے کھانے لاکر رکھ دیئے شہزادوں نے کہا بابا آپ نے ہم سے یہ دریافت نہیں کیا کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیوں آئے ہیں بابا نے کہا مجھے سب کچھ معلوم ہے۔


 تم خاموشی سے کھانا کھاؤ اتنے میں تمہارے سونے کے لئے بستررو کا بندوبست کرتا ہوں شہزادے خاموشی سے کھانا کھانے لگے اور بابا دوسرے کمرے میں چلا گیا شہزادوں کو بھوک شدت سے لگ رہی تھی اسی لئے خوب اچھی طرح کھایا اور جب پیٹ بھر گیا تو اٹھ کر ٹہلنے لگے اسی وقت بابا ان کے پاس آیا اور اپنے ساتھ برابر کے کمرے میں لے گیا وہاں تین بڑے بڑے پلنگ بچھے ہوئے تھے اور ان پر سفید اور اجلے بستر لگے ہوئے تھے۔


 شہزادے نے کہا بابا اس ویران قلعے کی ہر چیز پتھر کی ہے بابا بولا آج آرام کرو کل میں سب کچھ بتاوں گا دوسرے دن بابا نے بڑے شہزادے سے کہا بیٹا میرے بھائی نے اس قعلے پر جادو کررکھا ہے وہ شاید تمہیں  ملا بھی ہوگا اسلم بولا وہی فقیر جو کہانی سننے کی فرمائش کرتا ہے بابا نے کہا ہاں وہ میرا بھائی ہے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے اس نے جادو کرکے تمام وزیروں امیروں اور میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو پتھر کا بنا دیا ہے اگر تم اس جادو کو توڑنا چاہو تو توڑ سکتے ہو لیکن اس کے لئے تین شرطیں ہیں جنہیں میرا بھائی لکھ کر مجھے دے گیا ہے اگر تم ان شرطوں کو پورا نہ کر سکے تو تم بھی پتھر کے بن جاؤ گے۔


 شہزادہ اسلم بولا میں ضرور ان شرطوں کو پورا کرونگا فرمایئے بابا نے ایک تختی دکھاتے ہوئے کہا اسے پڑھو شہزادے نے پڑھا اس پر لکھا ہوا تھا قلعہ کی فصیل کے پاس ایک نیم کا درخت ہے اس کے اردگرد شہزادی نور بانو نے ایک ہزار لعل دفن کیے تھے اگر تم نے زمین کھود کر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے یہ لعل نکال لیں تو ٹھیک ہے ورنہ تم پھتر کے بن جاؤ گے شہزادے نے کہا باقی دو شرطیں کیا ہیں بابا بولا پہلے اس ایک شرط کو پورا کرو پھر دو بھی بتادوں گا ۔


شہزادہ یہ کہہ کر کہ یہ کون سی بڑی بات ہے نیم کے درخت کے پاس گیا اور پھاوڑے سے زمین کھودنے لگا شام تک زمین کھود کر لعل تلاش کرتا رہا لیکن سو سے زیادہ لعل تلاش نہ کر سکا اور وہ بھی پتھر کا بن کر رہ گیا دوسری صبح شہزادہ اجمل نے غسل کیا کھانا کھایا اور نیم کے درخت کے پاس جا کر زمین کھودنے لگا شام وہ بھی سو سے زیادہ لعل تلاش نہ کر سکا اور شہزادہ اسلم کی طرح پتھر کی مورت بن کر رہ گیا تیسرے صبح بونے شہزادے کی باری تھی وہ جانتا تھا کہ جس کام کو اس کے دو بڑے بھائی نہ کر سکے اسے وہ کس طرح کر سکتا ہے اس نے چالاکی سے کئی باتیں بابا سے دریافت کرنے کی کوشش کی لیکن بابا نے ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالا آخر بونا مجبور ہو کر نیم کے درخت کے نیچے پہنچا اور اپنی پوری طاقت سے زمین کھودنے لگا دوپہر تک اس نے درخت کی جڑیں بھی کھود ڈالیں اور درخت گر پڑا لیکن سو ڈیڑھ سو سے زیادہ لعل نہ ملے۔


 اور اسے یقین ہوگیا کے ایک ہزار لعل نہیں مل سکتے اور اب موت یقینی ہے اس خیال سے وہ سر پکڑ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا بونے شہزادے کو روتے روتے تین گھنٹے گزر گئے۔


 اور سورج غروب ہونے میں صرف ڈیڑھ گھنٹہ باقی رہ گیا اور بونے کے کپڑے آنسوؤں اور پسینہ سے نر ہوگئے اسی وقت اسے چونٹیوں کی ایک فوج آتی ہوئی دکھائی دی بونا ننھی ننھی چونٹیوں کی لمبی چوڑی فوج دیکھ کر حیران رہ گیا اس فوج میں آگے سیکڑوں کالے کالے چیونٹے تھے۔


 جو اپنے بادشاہ کہ محافظ تھے ان کے پیچھے بادشاہ تھا جس کا رنگ بالکل سنہری تھا اور وہ ایک سیاہ چیونٹے کی پیٹھ پر سوار تھا اس کے پیچھے لاتعداد اور ان گنت چیونٹے اور چونٹیاں تھیں۔ بونا حیرانی سے انھیں دیکھ ہی رہا تھا کہ بادشاہ نے کہا آپ کیوں روتے ہیں ہم اپنی فوج لے کر آپ کی مدد کے لئے حاضر ہوئے ہیں فرمائیے کس چیز کی تلاش ہے بونے نے کہا ایک ہزار لعل یہاں دفن ہیں انہیں نکالنا ہے۔


 چونٹیوں کے بادشاہ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ فورا لعل نکال کر لے آئیں حکم کی دیر تھی کہ فوج زمین میں گھس گئی ۔


بادشاہ نے بونے سے کہا آپ کو یاد ہے کہ ایک روز آپ کے دو بھائی ہمارے گھروں کو برباد کرکے ہماری مصیبت کا تماشہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن آپ نے انہیں سمجھا کر روک لیا تھا۔


 بونے شہزادے نے جواب دیا ہاں مجھے یاد ہے بادشاہ بولا ہم بے زبانوں پر ترس کھا کر آپ نے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے اسی لیے ہم آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوئے ہیں چیونٹیوں نے ایک گھنٹے میں سارے لعل نکال کر بونے کے سامنے ڈھیر لگا دیا ۔

بونے  نے سب کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور لعل ایک چادر میں باندھ کر بابا کے پاس لے گیا فوج واپس چلی گئی بابا نے اسے شاباشی دیں اور ایک گلاس بھر کر دودھ پینے کو دیا بونے نے کہا دوسری شرط کیا ہے؟ بابا کہنے لگا وہ کل بتاؤں گا اب تم آرام کرو دوسری صبح کو بابا نے دوسری تختی شہزادے کو دکھائی۔


اس پر لکھا ہوا تھا قلعہ سے ایک میل آگے ایک جھیل ہے جو بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے اس میں شہزادی نور بانو کے سونے کے کمرے کی کنجیاں پھینک دی گئی ہیں ۔


اگر  شام تک تلاش کر سکتے ہو تو کرو بونا شہزادہ اللہ کا نام لے کر جھیل پر گیا دیکھا تو جھیل اتنی گہری تھی اس میں تیر کر ہی اتر سکتا تھا اس کے علاوہ اتنی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔


 کہ شام تک تو کیا ایک مہینے تک تلاش کرنے سے بھی کنجیاں نہ ملتیں وہ سر پکڑ کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔


دوپہر کے وقت پانچ بطخیں اڑتی ہوئی آئیں اور بونے سے کہنے لگیں آپ فکر نہ کریں آپ نے ہماری جان بچائی تھی ہم آپ کی مدد کریں گے اور انہوں نے جھیل میں اتر کر تھوڑی ہی دیر میں کنجیاں لاکر بونے کے سامنے رکھ دی بونے نےان کا شکریہ ادا کیا اور وہ اڑ کر واپس چلی گئیں۔


 اور شہزادے نے قلعہ میں جاکر کنجیاں بابا کو دے دیں دوسرے دن بابا بونے شہزادے کو ساتھ لے کر ایک بہت ہی علیشان کمرے میں گیا یہاں تین بت کھڑے ہوئے تھے اور پاس ہی ایک تختی لٹکی ہوئی تھی ۔


جس پر لکھا ہوا تھا یہ تینوں شہزادیاں ہیں بت بنتے وقت بڑی شہزادی قند کھا رہی تھی


 منجھلی شہزادی نے شربت پیا تھا اور چھوٹی شہزادی نور بانو نے شہد چاٹا تھا بتاؤ شہزادی نور بانو کون سی ہیں؟


بابا چلا گیا اور بونا شہزادہ غور سے تینوں کو دیکھنے لگا تینوں کی شکل و صورت بال کپڑے سب کچھ ایک جیسا تھا صرف قد میں فرق تھا وہ سوچنے لگا کہ ان میں سے پہچاننا تو بہت مشکل ہے۔


 اب میری موت لازمی ہے اس کا سر چکرانے لگا اور بات بھی کچھ ایسی ہی تھی اس جگہ بڑے سے بڑا عقلمند بھی ہوتا تو وہ بھی نہیں پہچان سکتا تھا بونا حیران تھا کہ کیا کریں کیا نہ کریں اس کے کان میں مکھی کے بھنجھنانے کی آواز آئی اس نے دیکھا کی شہد کی مکھیوں کی رانی اس کے کان کے گرد اڑ رہی ہیں اس نے کہا ۔


شہزادے میاں تم نے ہمارے ہال کو اپنے بھائیوں سے بچایا تھا اگر وہ آگ لگا دیتے تو دھیوئیں سے گھبرا کر تمام مکھیاں بھاگ جاتیں اور شہد وہ چاٹ کر جاتے اس لئے میں تمہارے احسان کا بدلہ چکانے آئی ہوں بونے شہزادے نے کہا کیا تم بتا سکتی ہو کہ ان تینوں میں سے کس نے شہد چاٹا تھا؟ 


مکھی رانی اڑکر باری باری تینوں شہزادیوں کے ہونٹوں پر بیٹھی پھر اشارے سے ایک بت کو بتایا کہ یہ ہے وہ شہزادی جو شہد چاٹتے ہوئے مورت بن گئی تھی مکھی رانی اپنا کام کر کے چلی گئی اور شہزادہ اکیلا کھڑا رہا تھوڑی دیر کے بعد بابا آیا اس نے کہا کیا تم نے پہچان لیا شہزادی کو ؟ بونے شہزادے نے جواب دیا جی ہاں میں نے پہچان لیا ہے ۔


اور اس نے آگے بڑھ کر چھوٹی شہزادی کا ہاتھ پکڑ لیا اسی وقت ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا لیکن ایک لمحے کے بعد ہی دوبارہ روشنی ہوگئیں یہ روشنی جو دوبارہ پیدا ہوئی اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں لے کر آئی تینوں شہزادیاں اصلی حالت میں آ گئی تھی جتنے دوسرے بت کھڑے ہوئے تھے سب کے سب زندہ ہو گئے۔


 گھوڑوں ہاتھیوں اور اونٹوں کی آواز سنائی دینے لگی پرندے چہچہانے لگے ۔


بونے شہزادے کو اپنے بھائیوں کا خیال آیا تو وہ دوڑ کر نیم کے درخت کے پاس پہنچا دیکھا تو وہ بھی اصل حالت میں زندہ کھڑے ہوئے تھے دونوں نے بونے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور کہا واقعی تم بہت ہوشیار ہو اگر تم ہمیں تلاش کرنے کے لئے نہ آتے تو ہم کبھی آزاد نہ ہوتے اور یہاں بھی تمہاری ہی وجہ سے دوبارہ زندگی ملی ہے۔


 بونے نے کہا اگر تم راستے میں چیونٹیوں کے گھر اجاڑ دیتے بطخوں کو کھا جاتے اور شہد چاٹ لیتے تو آج ہم تینوں بت بنے ہوئے کھڑے ہوتے پھر اس نے سارا قصہ سنایا اسلم اور اجمل نے کہا ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ کبھی کسی جانور کو یا انسان کو نہیں ستائیں گے بلکہ سب کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں گے اور نیکی کا سلوک کریں گے یہ باتیں کرنے کے بعد تینوں واپس بابا کی طرف چلے رستے میں ملازم اور وزیروں نے انہیں روک لیا۔


 اور کہاں حضور کو بادشاہ سلامت یاد فرما رہے ہیں بونے بادشاہ نے کہا ہم بادشاہ کے پاس جانے سے پہلے بابا سے ملیں گے اور ان کے ہمراہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے وزیر نے کہا بابا ہی بادشاہ ہے چلیے تینوں شہزادے ان کے ہمراہ دربار میں گئے دیکھا تو ان کا غریب بابا سر پر تاج پہنے بڑی شان سے تخت پر بیٹھا ہوا ہے بادشاہ نے بونے شہزادے کو بائیں جانب اور اسلم و اجمل کو دائیں طرف بٹھایا پھر بونے سے کہا تم کو بائیں جانب اس لیے بیٹھایا ہے کہ اس طرف ہمارا دل ہے اور ہم تم کو اپنے دل کے قریب رکھنا چاہتے ہیں پھر بادشاہ نے چھوٹی شہزادی نور بانو کو بلایا۔


 اس نے آکر سلام کیا بونے شہزادے نے غور سے دیکھا نور یہ وہی بونی شہزادی تھی جس سے اس کی منگنی ہوئی تھی بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا تم کو محل میں جو بادشاہ ملا تھا وہ میرا سب سے چھوٹا بھائی ہے میری تینوں بیٹیاں اور ایک بیٹا اسی کے پاس تھے لیکن ان کے بت یہاں کھڑے ہوئے تھے اور یہ سب کچھ بڑے بھائی کے جادو کا اثر تھا تینوں شہزادے حیرت سے کبھی نور بانو کو دیکھتے کبھی بادشاہ کو وزیروں نے آگے بڑھ کر کہا ہمیں بھی پہچانے ہم وہاں آپ کو ملے تھے بونے نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا آپ سب لوگوں کو میں نے وہی دیکھا تھا بادشاہ نے کہا اب میں چاہتا ہوں کے نور بانو کی شادی تم سے کروں اور باقی دو بیٹیوں کی شادی تمہارے ان بھائیوں سے بونا شہزادہ رضامند ہو گیا اور ایک ہفتے کے بعد تینوں شہزادوں کی شادی ہوگئی اور تینوں شہزادے ہنسی خوشی رہنے لگے۔


شہزادوں کی واپسی


شہزادوں کو قلعہ میں رہتے ہوئے  کئی مہینے گزر گئے تو انہوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا بادشاہ نے انہیں خوشی سے اجازت دیں اور بہت سا سازوسامان دیا بونے شہزادے نے کہا جانے سے پہلے یہ اور بتا دیجیے۔


 کہ آپ کے سب سے بڑے بھائی صاحب کہانی سنانے کی فرمائش کیوں کرتے تھے بادشاہ نے کہا ان کے خیال میں صرف وہی شخص عقلمند ہوتا ہے۔


 جسے کہانیاں یاد ہو تم نے کہانی سنا کر انہیں یقین دلایا کہ تم ہوشیار اور عقلمند ہو اسی لیے انہوں نے سرخ موتیوں کی مالا تمہارے گلے میں پہنا دی تھی اور یہ مالا ہمارے بھائی اور دوسرے لوگوں کے لئے نشانی تھی کہ اس شخص کی عزت کی جائے بونا شہزادہ یہ بات سن کر حیران ہوا پھر اپنے بھائیوں اور شہزادیوں کو ہمراہ لے کر بادشاہ سے رخصت ہوا راستے میں محل دکھائی نہ دیا۔


 بلکہ اس کی جگہ ایک جھونپڑی تھی شہزادے اس میں گئے دیکھا تو پہلا بادشاہ فقیر نہ کپڑے پہنے عبادت میں مصروف تھا اس نے سب کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور آگے جانے کے لیے کہا لہذا سب آگے چل دیے اب وہاں نہ پھول تھے نہ حوض اور نہ فوارے صرف میدان تھا چٹیل میدان بہت دور چلنے کے بعد فقیر ملا دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔


 اور بونے کو اٹھا کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا پھر باری باری تینوں شہزادوں کو پیار کیا اور کہا میں بہت بیمار ہوں صرف تمہیں دیکھنے کے لیے جی رہا تھا خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے پھر بونے شہزادے سے کہا تم ہمیشہ پھولو اور پھلو گے تم نے میرا جادو توڑ کر بہت سے لوگوں پر احسان کیا ہے یہ کہتے کہتے اس کے سینے میں درد اٹھا اور وہ گر پڑا شہزادے اس کے قریب پہنچے تو اس کا دم نکل چکا تھا سب نے اسے دفن کیا اور اپنے ملک میں پہنچے بادشاہ سب کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہا تم گئے تھے ملک فتح کرنے اور لے کر آئے چاند جیسی دلہن اسلم اجمل نے کہا یہ سب کچھ بھائی منظر کی مہربانی ہے بادشاہ نے ملک میں جشن منایا اور لوگوں نے کہا بونا شہزادہ زندہ باد بونا شہزادہ پائندہ باد۔۔



Post a Comment

Previous Post Next Post