بوتل کا جن دلچسپ کہانی

 




عراق کے قدیم شہر بابل کے ایک گاؤں باب الجبل میں صلاح الدین نامی غریب و یتیم لڑکا رہتا تھا، اس کے ماں باپ کا بچپن ہی میں انتقال ہو چکا تھا، قریبی رشتہ دار بھی کوئی نہیں تھا، اس کی پرورش گاؤں والوں نے کی تھی، رہنے کا کوئی بھی ٹھکانہ نہ تھا، جہاں جگہ ملتی سو جاتا، اور جو کھانے کو مل جاتا وہ کھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا-


گاؤں کے آخری کنارے پر ایک بڑی بھی کا تندور  تھا، تندور کے ساتھ ہی بڑی بھی کی جھونپڑی تھی، گاؤں والے تندور پر روٹیاں لگوانے آتے، جو کچھ مزدوری میں ملتا، بڑی بی اس سے گزارا کرتی، صلاح الدین اکثر بڑی بی کے پاس آبیٹھتا اور بڑی بی اسے کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور دیتی-


وقت گزرتا رہا اب صلاح الدین پندرہ سال کا ہو رہا تھا، ایک دن وہ بڑی بی کے پاس بیٹھا تھا کہ بڑی بھی بولی۔" بیٹا تیرا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اور بھری دنیا میں میں بھی اکیلی ہوں، تو میرے پاس رہا کر، روکھی سوکھی جو بھی ملے گی، دونوں مل کر کھا لیا کریں گے، ویسے بھی ایک سے بھلے دو" صلاح الدین تیار ہوگیا، اور دونوں ساتھ رہنے لگے۔


گاؤں میں صلاح الدین کا ایک ہی دوست تھا، خلیل ابراہیم دونوں کی دوستی مثالی تھی، خلیل ابراہیم کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، جن کی گاؤں میں اجناس کی دکان تھی، جہاں اب خلیل ابراہیم بیٹھتا تھا وہ اپنے گھر میں بیوہ ماں اور ایک بہن لیلی کوکب کے ساتھ رہتا تھا، ان کے حالات بھی بہت بہتر نہیں تھے لیکن بہرحال گزارہ ہو رہا تھا دونوں دوست ایک دوسرے کے حالات سے بخوبی آگاہ تھے۔


                اس وقت دوپہر ہو رہی تھی، بڑی بھی تندور بند کرکے اپنی جھونپڑی میں چارپائی پر جا بیٹھی تھی، صلاح الدین تندور کے چبوترے پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔


       بڑی بی کی آواز سنائی دی: بیٹا صلاح الدین پیاس لگی ہے پانی پلا دو صلاح الدین اٹھ کر گھڑے کی طرف  بڑھا، گھڑا خالی پڑا تھا پانی نہیں تھا ،اس نے بالٹی اٹھائی اور کنوئیں پر پانی لینے چل دیا۔


کنوئیں پر پہنچ کر اس نے چرخی گھما کر ڈول کنوئیں میں ڈال دیا، اور جب ڈول بھرگیا تو اسے باہر نکال لیا ڈول پانی سے لبریز تھا، مگر بالٹی کی تہہ میں کانچ کی ایک بوتل پڑی تھی، صلاح الدین حیرت سے  بوتل کو دیکھنے لگا اس نے پانی بالٹی میں پلٹ دیا ،اور بوتل اٹھالی بوتل کا منہ بند تھا اور کانچ کی شفاف بوتل میں ایک انگوٹھی نظر آرہی تھی، اس نے بوتل اور بالٹی اٹھائی اور جھونپڑی میں آگیا۔

      

        گھڑے میں پانی انڈیل کر اس نے بڑی بی کو پانی پلایا، فارغ ہوکر اس نے بوتل اٹھائی اور تندور کے چبوترے پر آ بیٹھا بوتل کو توڑ کر اس نے انگوٹھی نکالی، انگوٹھی بہت خوبصورت تھی صلاح الدین نے سوچا اس انگوٹھی کو بیچ کر سب سے پہلے کھانے پینے کا بندوبست کرے گا یہی سوچتے ہوئے وہ اپنی قمیض کے دامن سے انگوٹھی کو صاف کرنے لگا۔

   

ابھی وہ انگوٹھی کو رگڑتے ہوئے صاف کر ہی رہا تھا، کہ اچانک ہی اس کے پاس بہت تیز ہوا چلنے لگی، ہوا کے تیز جھکڑ ایک دائرے کی شکل میں اس کے آس پاس چل رہے تھے، وہ گھبرا گیا اور حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا، کے شاید آندھی کا طوفان ہے اچانک ہی اس کے سامنے ہوا کا ایک تیز جھونکا بھنور کی طرح چکرانے لگا، پھر اس جھونکے نے ایک خوفناک ہیولے' کی شکل اختیار کر لی، صلاح الدین بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا وہ بری طرح سہما ہوا تھا۔


زمین سے تقریبا 20 فٹ کی بلندی پر پہنچ کر وہ پرہیت اور خوفناک شکل صلاح الدین سے مخاطب ہوئی، اس کے دونوں لمبے چوڑے ہاتھ سینے پر بندھے ہوئے تھے۔


حکم کو میرے آقا غلام حاضر ہے میں اس انگوٹھی کا جن ہوں، جس کے پاس یہ انگوٹھی ہوگی میں اس کا غلام ہوں ایک عجیب طرح کی گھن گرج تھی اس کی آواز میں۔


صلاح الدین اچھل کر سیدھا کھڑا ہو گیا بہت دیر تک اس کے حلق سے کوئی آواز نہ نکلی، اس سے پہلے وہ الہ دین کے چراغ اور جن کی کہانیاں بچپن سے سنتا چلا آ رہا تھا، لیکن کبھی کوئی کہانی ایسی حقیقت بنے گی یہ اسے آج پتہ چل رہا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ الہ دین کے چراغ والا جن ہے، اس نے خوفزدہ نظروں سے جن کی طرف دیکھا جو گردن جھکائے اور ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔


اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا:" کیا تم واقعی الہ دین کے چراغ کے جن ہو۔"

جن انتہائی محبت سے بولا:" جی نہیں میں انگوٹھی کا جن ہوں۔"

اس نے کہا :"جن بھائی کیا آپ مجھے کھانا لاکے دے سکتے ہو؟


جن نے کہا:" حکم دیجیے میرے آقا کھانے کی قابیں سجادوں آپ کے سامنے، یہ کہہ کر جن غائب ہوگیا صلاح الدین کی آنکھ جھپکی تھی کہ تندور کے چبوترے پر اسے دسترخوان نظر آیا، جس پر بہت سارے کھانے چنے ہوئے تھے زردہ ، پلاؤ، متنجن، مرغ قورمہ ،شیرمال اور شاہی ٹکڑوں کے علاوہ اور بہت کچھ تھا اور یہ تمام کھانے انتہائی عمدہ اور قیمتی برتنوں میں سجے ہوئے تھے، 


صلاح الدین اپنی آنکھیں ملتے ہوئے دسترخوان کی طرف دیکھ رہا تھا، کیا یہ سب کچھ حقیقت ہے یا میں خواب دیکھ رہا ہوں اس نے شاہی ٹکڑے کی قاب میں ہاتھ ڈالا اور ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا، شاہی ٹکڑے کے لذیذ ذائقہ نے اسے بتا دیا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے، جن غائب ہوچکا تھا صلاح الدین اٹھا اور جھونپڑی میں داخل ہوکر بڑی بھی کو باہر لے آیا، بڑی بھی تندرو کے چبوترے پر رکھے بہت سے کھانوں کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی،


 اس نے صلاح الدین سے پوچھا یہ سب کیا ہے یہ کھانے کہاں سے آئے.......... ؟ اماں کچھ پوچھو مت بس چپ چاپ کھانا کھاؤ۔ صلاح الدین دسترخوان پر بیٹھا اور کھانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا، بڑی بی حیرانگی سے بیٹھی کبھی کھانوں کو کبھی صلاح الدین کو دیکھ رہی تھی صلاح الدین نے کھانے کا اشارہ کیا اور بڑی بی سر جھٹک کر کھانا کھانے لگی۔


            کھانے سے فارغ ہوکر اس نے بڑی بی کو جھونپڑی میں بھیج دیا اور خود انگوٹھی کو دیکھنے لگا، بڑی بی کے جانے کے بعد اس نے انگوٹھی کو رگڑا تو فورا ہی جن حاضر ہو گیا۔


"کیا حکم ہے میرے آقا"۔

"جن بھائی:" ایک بات بتاؤ ،کیا تم ہمیشہ میرے غلام رہو گے؟"

"آقا میں طویل عرصے سے قید میں ہوں اب آزادی چاہتا ہوں آپ مجھے اپنی تین بڑی خواہشیں بتا دیں، میں انہیں پورا کر دوں گا پھر آپ مجھے آزاد کر دیجئے گا، آزادی کے بعد بھی کبھی آپ پر مشکل وقت آیا تو میں حاضر ہو جاؤں گا"۔


" نہیں جن بھائی ، میں تمہیں غلام نہیں رکھنا چاہتا میں اپنی تین خواہشیں بتاتا ہوں تم یہ پوری کر دو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔"

" ٹھیک ہے آقا ، اپنی تینوں خواہشیں بتائیے"


"جن بھائی، میری پہلی خواہش یہ ہے کے سامنے موجود خالی میدان میں ایک خوبصورت مسجد ہو جس میں مدرسہ اور لنگر خانہ ہو، جہاں کبھی بھی کھانے کی کمی نہ ہو"


" میری دوسری خواہش اس جھونپڑی کی جگہ علیشان حویلی ہو، جس میں نوکر چاکر اور دولت کی ریل پیل ہو۔"


" میری تیسری خواہش یہ ہے کہ مجھے بہت بڑا سوداگر بنا دو، جس کا کاروبار دور و نزدیک پھیلا ہوا ہوں اور مجھے کاروبار میں کبھی نقصان نہ ہو"۔


" جن نے کہا آپ کی تینوں خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اور پھر وہ غائب ہو گیا۔" 

اگلے دن جب صلاح الدین سو کر اٹھا تو جھونپڑی غائب تھی، وہ ایک آرام دہ بستر پر عمدہ پوشاک پہنے لیٹا ہوا تھا، گھر میں نوکر چاکر گھوم رہے تھے بڑی بی بھی عمدہ لباس پہنے ہوئے اچنبھے سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں ، 


صلاح الدین حویلی سے باہر آیا تو سامنے ہی خوبصورت مسجد، مدرسہ اور لنگر خانہ موجود تھا جس کے برابر میں ایک بڑی عمارت موجود تھی جس کے دروازے پر تختی لگی ہوئی تھی۔"


" کاشانہ سوداگر صلاح الدین"


صلاح الدین نے بڑی بی سے کہا، کہ وہ خلیل ابراہیم کے گھر جائے اور اس کے لئے لیلی کوکب کا راستہ مانگے، بڑی بی فورا چلی گئی ادھر صلاح الدین کے نام کا ڈنکا بج چکا تھا، لوگ حیرانی سے مسجد حویلی وغیرہ کو دیکھ رہے تھے بڑی بی نے خلیل ابراہیم کی ماں سے رشتہ کی بات سن کر وہ خوشی خوشی تیار ہو گئی یوں صلاح الدین اور لیلی کوکب کی شادی ہوگئی بڑی بی خلیل ابراہیم اس کی ماں اور خود لیلی کوکب سب ہی خوش تھے سب ہی مزے سے زندگی گزارنے لگے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post