ذاکر و باقر دو بھائی تھے شاکر ان کے باپ کا ایک بوڑھا ملازم تھا وہ بہت خوش مزاج اور حد سے زیادہ باتونی تھا جب بھی اس کو وقت ملتا تھا وہ دونوں بھائیوں کو دلچسپ کہانی سنا دیا کرتا تھا دونوں بھائیوں کو ملازم شاکر سے گہرا لگاؤ ہو گیا وہ اب اس کا نام لینے کے بجائے اس کو دادا جان کے نام سے پکارا کرتے تھے شاکر محنتی اور وفادار ملازم تھا کبھی کبھی تو اس کو کہانی سنانے میں اتنا وقت لگ جاتا تھا کہ آدھی رات گزر جاتی تھی شاکر نے دونوں بھائیوں کو جتنی کہانیاں سنائی تھی ان میں دیو اور پریوں کی کہانیاں زیادہ پسند تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے نہ دیکھے تھے اور نہ پریاں وقتن فوقتن ان کے دلوں میں یہ خیال آ جاتا تھا کہ نہ جانے پریاں کتنی خوبصورت ہوں گئی اور دیو کتنے طاقتور ہوں گے۔
زمین کی گردش قائم تھی اور وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا کہ ایک دن دوپہر کے وقت جب کہ سورج بادشاہ اپنے دامن میں سے جھلسا دینے والی لمبوتری کرنیں پھینک رہا تھا سڑکوں پر ہوا کا عالم تھا کھلے میدانوں میں گرد کے بگولے بھوتوں کی طرح منڈلا رہے تھے شہر کی رونق بالکل ماند پڑ گئی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا انسانوں کی تعداد میں جگہ برائے نام رہ گئی ہے گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں چھپے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ سو رہے تھے۔
ملازم شاکر کو دونوں لڑکے گھیرے ہوئے تھے وہ اس وقت ایک ہوادار کمرے میں تھے بوڑھے ملازم سے دیووں اور پریوں کے متعلق طرح طرح کے سوال کیے جا رہے تھے جنات کے متعلق بوڑھے ملازم نے یہ بتلا دیا تھا کہ وہ اپنی شکل بدل لیتے ہیں اور وہ عموما ان ہی کی دنیا میں انسانوں کے ساتھ انسانی مشکلوں میں رہتے ہیں ملازم کی اس قسم کی گفتگو سن کر دونوں بھائی جب بھی کسی عجیب قسم کی شکل والے نئے آدمی کو دیکھتےتو وہ یہ ہی خیال کرتے وہ جن سے جو اپنی شکل بدل کر ان کے شہر میں گھوم رہا تھا۔
رات کے وقت حلوائی کی تمام مٹھائی جنات طاقت خریدتے تھے کبھی کبھی باقر وذاکر کو اس قسم کے خریدار بھی جنات معلوم ہوتے تھے ایک روز باقر نے کہا دادا جان آپ نے پریوں کی خوبصورتی کی بہت سی کہانیاں سنائی ہیں اور ہم نے آج تک ایک پری کو بھی نہیں دیکھا دوسرے بھائی نے کہا کیوں دادا جان کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے جو ہم کسی پری کو دیکھ لیں بوڑھے نے پورے اطمینان کے ساتھ اپنے سر کو آگے کی طرف جھکاتے ہوئے کہا ہاں یہ اتفاق کی بات ہے کہ مشام پری ایک دوسری پری کے قتل کے الزام پر پرستان سے نکال دی گئی ہیں وہ ان دنوں اس جگہ سے قریب ہی ایک جنگل کے اندھیرے کنویں میں رہتی ہے میں نے خود اس کو دیکھا ہے وہ بے حد خوبصورت ہے تم اگر کوشش کرو تو اس کو دیکھ سکتے ہو دونوں بھائیوں کو ملازم کے اس جواب سے بےحد خوشی حاصل ہوئی اس کے بعد انہوں نے اس کو اس جنگل میں چلنے کے لئے رضامند کرلیا طے یہ پایا کہ اتوار کو سکول کی چھٹی گی ابا جان سے کچھ دیر کے لیے اجازت لے لیں گے۔
بوڑھے ملازم نے کہا کہ اگر تم اس کام کے لیے کسی جن کو اپنا دوست بنالو گے تو بڑی آسانی ہوگی باقر نے کہا یہ کام تو آپ ہی انجام دیں گے ذاکر نے کہا ہاں ایسا ہی ہونا چاہیے ہم ابھی بچے ہیں جن سے ڈر معلوم ہوتا ہیں کیونکہ آپ نے بتلایا تھا کہ وہ بڑے غصیل ہوتے ہیں ملازم نے کہا رحم دل بھی ہوتے ہیں ہیں چند دنوں کے بعد انہوں نے ایک جھلسے ہوئے چہرے والے موٹے آدمی کو جن تصور کرلیا ملازم نے بھی تائید کر دی اس کے بعد اس کو بڑی آسانی سے انہوں نے اپنا دوست بنا لیا اتوار کو چاروں اس جنگل کی طرف روانہ ہوگئے جہاں کنواں تھا شاکر نے بتلایا کہ وہ پری اس کنویں میں رہتی ہے ذاکر نے کہا لیکن اس کے اندر کون اترے گا جو اترے گا وہ مر جائے گا ملازم نے کہا ہم کو جن بھیا سے کام لینا چاہیے جس آدمی کو جن خیال کر کے لائے تھے وہ کنویں میں اترنے کے لئے تیار نہ ہوا شاکر نے ٹھوڑی دیر غور کرنے کے بعد کہا ہم کو اس جگہ ٹھہرنا چاہیے پری جب کنوئیں سے باہر نکلے گی تو دیکھ لینا دوپہر کے بعد آسمان پر سناٹا ہوا شاکر نے کہا لوپری آرہی ہے اب وہ کنوئیں میں اترے گی ذرا دیر بعد آسمان سے ایک خوبصورت پری اتری اس کے سر پر سنہری تاج تھا وہ بے حد خوبصورت تھی ذرا دیر وہ منڈیر پر پر ٹھیری اس کے بعد وہ کنویں میں کود پڑی دونوں لڑکے پری کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور ملازم کا حیرت سے منہ تکنے لگے باقر سے رہا نہ گیا وہ پری کو دوبارہ دیکھنے کے لئے کوئی کی طرف گیا اور منڈیر پر کھڑے ہوکر کر جھانکنے لگا۔
کون ہے ؟
کنویں کے اندر سے آواز گونجی اس آواز کی دہشت سے باقر کا پاؤں پھسلا اور وہ کنویں میں گر پڑا رونے کی آواز جب ذاکر سنی تو وہ بھی اپنے بھائی کے لیے رونے لگا شاکر سخت پریشان تھا وہ سوچنے لگا اس نے ذاکر کو تسلی دی اس کے بعد وہ انسان کا جن کی مدد سے اسی جنگل سے دو درختوں کے سوکھے ہوئے تنے لے آیا اس نے اپنےساتھی سے کہا ایک تنے کو وہ کنویں میں ڈالے دوسرے کو وہ ڈالتا ہے چنانچہ ایسا کرنے سے پہلے اس نے اپنی کمر سے رسی باندھی اس کا دوسرا سرا ایک درخت سے باندھ دیا دونوں درختوں کے تنے کنوئیں میں ڈال دیئے اور بوڑھے ملازم نے ایک بیل کے کھوکھلے سینگ کو منہ سے لگاتے ہوئے کہا او بدبخت پری تو نے میرے لڑکے کو گرایا ہے خبردار ہو جا اب تجھے ہلاک کرنے میں آیا ہوں اس کے بعد شاکر کنوئیں میں کود پڑا پری نے درخوں کے دونوں تینوں کو کسی عظیم مخلوق کی ٹانگیں سمجھی اور بھیانک آواز جو سنی تو وہ گھبرا گئی اس نے خیال کیا کہ اگر کنوئیں میں گرنے والے لڑکے کو اس نے باہر نہ نکالا تو کنو یئں میں داخل ہونے والی بڑی مخلوق اس کو ہلاک کر دے گی چنانچہ اس نے لڑکے کو گود میں اٹھایا اور پانی سے بھر کر اوپر اٹھنے لگی شاکر نے اس کو دیکھ کر دلی تسلی کی کہ وہ اپنے ساتھی کو سمجھا گیا تھا اس نے اس کو پر کھینچ لیا ذرا دیر بعد پری باقر کو لے کر باہر آگئی شاکر نے اپنی آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے کہا اے پری اب میں تجھے اپنا جادو سے جلا کر راکھ کردوں۔
اب تو پری ہاتھ جوڑنے لگی اس نے اپنی طرف سے دونوں لڑکوں کو بہت سے زر و جواہر دیئے اور معذرت چاہی دونوں لڑکے بے حد خوبصورت تھے اب انہوں نے شاکر کو واپسی کے لیے کہا شام قریب تھی دونوں بچے واپس لوٹے اور گھر واپس گئے اسی روز پری نے فیصلہ کرلیا اس کو فورا اپنی قیام گاہ تبدیل کر لینی چاہیے تاکہ وہ بنی نو انسان سے اپنے آپ کو اور اپنی قیام گاہ کو پوشیدہ رکھ سکے پس اسی روز وہ اس کنویں سے اپنا تمام سامان لے کر کوہ ہمالیہ کے ایک غار میں منتقل ہو گئیں اس کے بعد وہ کسی کو نظر نہ آئی اب پورے شہر میں باقر ذاکر اور شاکر سے زیادہ کوئی امیر نہ تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پری کے جواہرات نے ان کو مالا مال اور فکر ذرا سے آزاد کردیا تھا۔