بس مجھے فتح گڑھ کے اسٹاپ پر اتار کر آگے بڑھ گئی میں نے کسی سواری کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا تو دور دور تک کوئی تانگاوغیرہ نظر نہ آیا اندھیرا پھیل چکا تھا اتنے میں عجیب سے حلیے والا ایک بوڑھا مجھے اپنی طرف آتا نظر آیا وہ پھٹے پرانے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا داڑھی اور سر کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے آنکھوں میں عجیب وحشت ناک چمک تھی۔
بوڑھے نے نزدیک آ کر پوچھا:" "کیوں میاں! کوئی سواری ملی؟
اس نے جواب دیا:" جی نہیں، لگتا ہے کہ سب تانگے جاچکے ہیں ۔
اس نے پوچھا: " تم فتح گڑھ جا رہے ہونا؟
اس نے حیرت سے پوچھا:" آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ مجھے فتح گڑھ جانا ہے۔
میں چپ رہا تو وہ بولا :" آؤ پیدل ہی چلتے ہیں یہاں کھڑے رہنے کا کیا فائدہ ۔ یہ کہہ کر وہ فتح گڑھ جانے والے راستے کی طرف چل پڑا ۔
میں اس کے پیچھے ہو لیا چلتے چلتے میں سوچ رہا تھا کہ اس بوڑھے کو میں نے بس میں تو نہیں دیکھا، پھر یہ کہاں سے آگیا۔
اندھیری رات تھی، سنسان راستہ اور ایک پراسرار بوڑھا ہم سفر تھا میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا دیو قامت درخت مجھے بھوت لگ رہے تھے۔
"اچانک بوڑھے نے پوچھا :"تمہیں ڈر تو نہیں لگ رہا ؟ " میں نے اپنے اندرونی ڈر کو چھپاتے ہوئے ذرا ہمت سے کہا " نہیں مجھے بالکل ڈر نہیں لگ رہا۔"
بوڑھے نے سر سراتی ہوئی آواز میں کہا : " پرسوں یہاں عجیب واقعہ ہوا۔" ایک مسافر یہاں سے گزر رہا تھا کہ اندھیری رات میں ایک بکری کا بچہ کے قدموں میں آکے لوٹنے لگا اس مسافر نے بکری کے بچے کو بازوؤں میں اٹھا لیا دل میں خوش ہوا کے چلو، مفت میں بکری کا بچہ مل گیا ابھی وہ مسافر چند قدم ہی چلا تھا کہ بکری کے بچے کا قد بڑھانے لگا دیکھتے ہی دیکھتے اس کے قدم زمین کو چھونے لگے مسافر نے حیرت سے بکری کے بچے کی طرف دیکھا تو ایک خوفناک بلا کا چہرہ نظر آیا.
وہ مسافر اس بلا کو بازوؤں سے جھٹک کر چیختا ہوا بھاگا یہ کہہ کر بوڑھے نے زور دار قہقہہ لگایا میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، مگر اندھیرے میں صرف دو آنکھیں چمکتی نظر آئیں اس نے سوچا یہاں سے بھاگ جاؤں ابھی ارادہ کر ہی رہا تھا کہ پیچھے سے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز آئی ، پھر ایک سانگ ہمارے قریب آکھڑا ہوا۔
بوڑھے نے کو چوان سے پوچھا:" کیوں بھائی! فتح گڑھ چلو گے؟
کوچوان نے کہا:" ہاں جی، میں ادھر ہی جا رہا ہوں، نہیں رہتا ہوں۔"
"آو بھئی بیٹھو " بوڑھے نے مجھ سے کہا اور کو چوان کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھ گیا میں پیچھے بیٹھنے لگا تو اس نے اصرار کرکے مجھے بھی آگے بٹھالیا۔
تانگا چل پڑا تانگے والے کی وجہ سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے مجھے اونگھ آگئی پھر بوڑھے کہ بلند قہقہوں سے میری آنکھ کھل گئی۔
میری آنکھوں نے عجیب منظر دیکھا پاکستان گی کو کھینچنے والا گھوڑا غائب تھا اور اس کی جگہ کو چوان تانگے کو کھینچ رہا تھا، بوڑھا پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتا کو چوان کی پشت پر چابک برسا رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے تانگا ہوا سے باتیں کرنے لگا ناہموار راستے کی وجہ سے تانگا بری طرح ہچکولے کھانے لگا.
اچانک تانگے کا پہیا ایک گڑھے میں گر پڑا اور تانگا الٹ گیا میں قلابازیاں کھا کر دور جاگرا گرتے ہی میں بجلی کی طرح اٹھا اور گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی میں اندھیرے راستے پر اندھا دھند بھاگ رہا تھا اور بوڑھے کے وحشت ناک قہقہے میرا پیچھا کر رہے تھے۔
اچانک مجھے اپنے چچا کے گھر کا دروازہ نظر آگیا میں نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹ ڈالا پھر جیسے ہی دروازہ کھلا میں جلدی سے اندر گھس گیا۔
بعد میں پتہ چلا کہ اس علاقے میں کوئی کوچوان نہیں رہتا دراصل وہ سب بھتنے تھے جو انسانوں کو ڈراتے تھے ۔